داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
سیّدہ فاطمۃ الزہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے انہیں بتایا کہ فلاں شخص جو ہمارا پڑوسی ہے اس کے گھر میں فاقے ہورہے ہیں، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ یہ بات سن کر بے تاب ہوگئے کہ کس طرح اپنے غریب پڑوسی کی مدد کریں، گھر میں تلاش کیا کوئی چیز ایسی مل جائے جس کو فروخت کرکے پڑوسی کی مدد کی جاسکے، بہت تلاش کے بعد ایک پرانی زرہ ملی جو کسی وقت مال غنیمت میں ملی تھی، اسے لے کر گھر سے نکلے کہ فروخت کرکے پڑوسی کی مدد کریں، ظہر کی اذان ہوگئی تو زرہ باہر رکھ کر مسجد میں چلے گئے کہ بعد میں فروخت کروں گا، نماز کے بعد مسجد سےنکلے تو دیکھا کہ زرہ موجود نہیں ہے، کوئی اٹھا کر لے گیاہے، حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ بہت غمگین ہوئے کہ کس طرح تو یہ زرہ ملی تھی، سوچا تھا کم از کم پڑوسی کے آج کے فاقے کا نظم تو ہو جائے گا، بہت اداس گھر لوٹے، اسی فکر میں تھے کہ کوئی صورت غریب پڑوسی کی مدد کی نکلے اس حال میں ایک دن گزر گیا مگر کوئی نظم نہیں ہوسکا۔ اسی فکر میں اگلی صبح گھر سے نکلے کہ کسی ساتھی سے پڑوسی کا حال بتا کر مدد کے لئے کہیں گے، اچانک دیکھا کہ ایک صحابیؓ سامنے سے گزرے، جن کے ہاتھ میں وہی زرہ تھی۔ ہماری اور آپ کی طرح وہ چور چور تو نہیں کہہ سکتے تھے، کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو اللہ کے حبیب حضور نبی کریمﷺ نے اہل ایمان کی عزت اور قدر خوب سمجھا دی تھی۔
حضرت علیؓ نے ان کو سلام کیا اور پوچھا کہ یہ زرہ آپ کو کہاں سے ملی؟ انہوں نے جواب دیا کہ میں نے آپ کے فلاں پڑوسی سے خریدی ہے؟ حضرت علی المرتضیٰ شیر خدا رضی اللہ عنہٗ صدمے سے بیٹھ گئے اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ صحابیؓ نے کہا: اے علی !(رضی اللہ عنہٗ) اس میں رونے کی کیا بات ہے؟ میں نے درہم دے کر یہ زرہ خریدی ہے۔ حضرت علیؓ نے فرمایا: یہ زرہ میں گھر سے لے کر اس لئے آیا تھا کہ فروخت کرکے اس کی رقم اسی پڑوسی کو دوں گا، مگر افسوس اس نے حلال پر قناعت نہ کی، اور مسجد کے باہر سے چرا کر بیج دی، یعنی اس زرہ کی قیمت اس کو ہی ملنا تھی، جو اگر میں بیچتا تو اس کے لئے حلال ہوتی، مگر اس نے چرا کر بیچ دی اور اسے اپنے لئے حرام کرلیا۔
ہمارے نبی کریمﷺ کا ارشاد گرامی ہے: بچہ ماں کے پیٹ میں ہوتا ہے، اس کا رزق، اس کی عمر اور اس کی موت کا بہانہ لکھ دیا جاتا ہے، اس کے بعد اس میں روح ڈالی جاتی ہے۔
رزق شریعت کی اصطلاح میں موت سے پہلے کام آنے والی ہر چیز کو کہتے ہیں، کتنا رزق کھائے گا، کتنے بڑے مکان کا مالک ہوگا، کتنی پراپرٹی ملکیت میں ہوگی، کتنے کپڑے پہنے گا، کتنی ہوا کھائے گا اور کتنی دوا کھائے گا، یہ روح ڈالنے سے پہلے کاتب تقدیر نے لکھ دیا ہے۔ انسان کو اس کا ہرگز اختیار نہیں کہ اپنے رزق کو کم کرلے یا زیادہ کرلے، اختیار صرف اس کا دیا گیا ہے کہ اس کو حلال کرے یاحرام کرے۔ زرہ کے پیسے حلال طریقہ سے بھی اسی کو ملنے تھے، مگر بیچارے نے اپنی ناعاقبت اندیشی سے چرا کر حلال کے بجائے حرام کرلئے۔خود مالک کائنات کا ارشاد ہے :ترجمہ:’’آسمانوں میں ہے تمہارا رزق، اور اس کو تم تک پہنچانے کا وعدہ ہے، پس آسمانوں اور زمین کے رب کی قسم یہ بات کوئی اجنبی نہیں ایسی عام بات ہے جیسے تم اپنی آنکھوں دیکھی باتوں کا ذکر کرتے ہو۔‘‘ آسمانوں میں کہنے کا مطلب یہ ہے کہ تمہارے مقدر کا رزق تمہاری دسترس سے باہر آسمانوں میں ہے، اور وہاں سے مقدر کا رزق تمہارے لئے اتارا جاتا ہے اب یہ تم پر ہے اگر جھولی یا برتن گندہ یا حرام لے کر حاصل کرو گے تو رزق بھی حرام اور ناپاک بن جائے گا، اور اگر احتیاط کرکے حلال اور پاکیزہ راستے سے حاصل کرو گے تو حلال اور پاکیزہ رزق تم کو مل کر رہے گا۔
اس کے بعد بھی ایک مومن جس کا تقدیر پر بھی ایمان ہو اور حرام مال پر آخرت میں سزا اور عذاب کا یقین بھی ہو، حلال کو چھوڑ کر حرام کمائی کی طرف کوشش و محنت کرے، تو خود اپنے ساتھ کس قدر احمقانہ دشمنی ہے۔ کاش! ہم اس گُر کو سمجھیں اور حرام کمائی سے حد درجہ بچ کر حلال اور طیب کمائی کی فکر کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں